Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

گھریلو اور معاشرتی زندگی کا آغاز

       گھریلو اور معاشرتی زندگی کا آغاز : 


فکر میں نکھار ،صورت میں نکھار ، اخلاق میں نکھار، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سراپا ایسے دل ربا بن گئے کہ عرب کی امیر ترین اور شریف ترین بیوہ خاتون خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا نے نکاح کا پیغام بھیجا،  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قبول فرمایا اور نکاح ہو گیا،  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کمال غیرت و خود داری کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کی ، کبھی کسی کا احسان نہ اٹھایا،  خود کمایا ، رفیقہ حیات پر بوجھ نہ ڈالا امیر گھرانے سے تعلق ہوتے ہوئے بھی زندگی کمال سادگی سے بسر کی اور ایسی مشال قائم کی جو دوسروں کیلئے نمونہ عمل ہے ، گھر کی ساری دولت اسلام کے نام پر قربان کر دی گئی ۔ 


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نسبت و نکاح  : 


سیدہ خدیجہ بنت خویلد کا نسب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اجداد میں چوتھے داداقصی سے ملتا تھا ، وہ نہایت دانشمند ، مستقل مزاج ، شریف النفس،  امیر کبیر اور حسین و جمیل تھیں اور قریش میں نسب کے اعتبار سے اعلی اور عزت و شرف میں سب سے بڑھ کر مانی جاتی تھیں 

زمانہ جاہلیت میں " طاہرہ اور سیدہ قریش " کے لقب سے یاد کی جاتی تھیں،  حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قبل ان کی دو شادیاں ہو چکی تھیں،  دونوں شوہروں کا انتقال ہو گیا تھا اور ان سے اولادیں تھیں،  سیدہ خدیجہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حسن معاملہ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں پے در پے برکتوں اور رحمتوں کی خبریں اور مستقبل کی پیش گوئیاں سن سن کر آپ سے بہت متاثر تھیں،  قبائل عرب کے بہت سے سردار آپ سے نکاح کرنا چاہتے تھے مگر آپ نے ان سب کو نظر انداز کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتخاب فرمایا اور ایک ذریعے سے پیغام بھجوایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس شادی کیلئے مال و دولت نہیں،  پیغام لانے والی نے کہا کہ اس سے آپ کو بے نیاز رکھا جاتا ہے اورچآپ کی خدمت میں مال و دولت،  حسن و جمال اور عزت و شرافت کی پیش کش کی جاتی ہے،  فرمایا ایسی خاتون کون ہے ؟ عرض کیا گیا ، سیدہ خدیجہ،  فرمایا تو مجھے منظور ہے ۔ 



خطبہ نکاح  : 


سیدہ خدیجہ نے اپنے چچا عمرو بن اسد کو کہلا بھیجا کہ آپ خود آکر عقد کرائیں،  چنانچہ وہ آئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے چچاوں کے ہمراہ تشریف لائے ، ابو طالب نے خطبہ پڑھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تعارف میں یہ کلمات قابل توجہ ہیں 

" اگر میرے اس بھتیجے محمد بن عبداللہ کا کسی سے بھی موازنہ کیا جائے تو وہ شرافت طبعی ، نجابت خاندانی ، فضیلت نفس اور عقل و دانش کے اعتبار سے سب پر فائق و برتر رہے گا ، اگر چہ وہ مال کے اعتبار سے کم تر ہے لیکن مال فنا ہو جانے والہ سایہ اور ایک مٹ جانے والی چیز ہے " 

ابو طالب کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے خطبہ دیا اور جو کچھ ابو طالب نے کہا اس کی تو ثیق کی ، اس کے بعد خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد نے خطبہ دیا اور کہا : 

" اے جماعت قریش ! آپ گواہ رہیں کہ میں نے محمد بن عبداللہ کا عقد سیدہ خدیجہ بنت خویلد سے کر دیا ہے " 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا ادا کیا ، ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے،  بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مہر اونٹینوں کی شکل میں تھا ، نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دو اونٹنیاں ذبح کر کے ولیمہ کیا اور احباب خو کھانا کھلایا،  سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کنیزوں نے خوشی میں دب بجاۓ،  خوب رونق رہی ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نکاح 595 ء میں سفر شام سے واپسی کے تقریبا دو ماہ بعد ہوا۔ 


اولاد  : 


سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں اولاد یوئی ۔ 

بیٹوں میں:  عبداللہ 

اور بیٹیوں میں : رقیہ ، زینب،  ام کلثوم اور فاطمہ 



زندگی کے عام مشاغل  : 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی بڑی سیدھی سادھی تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے کپڑوں کو دیکھ بھال خود کرتے،  بکری کا دودھ خود دوہتے ، اپنی ضرورتیں خود پوری کرلیتے ، کپٹروں میں خود ہی پیوند لگا لیتے ، یہاں تک کہ اپنی جوتیوں کی خود ہی مرمت کر لیتے بوجھ اٹھاتے اور بازار سے جا کر سودا سلف خریدنے میں کبھی عار  محسوس نہ کرتے ،جانوروں کو خود چارا ڈالتے ، خادم کام کرتا تو اس کے ساتھ مل کر کام کرتے ، اس کو بھی نہ جھٹرکتے ، پیار و محبت کا سلوک کرتے ۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہر کا وقت مقرر کر رکھا تھا ۔ کچھ وقت خدا کی عبادت میں مصروف ہوتا ، کچھ وقت اہل و عیال کی دیکھ بھال میں صرف ہوتا ، آرام فرماتے ، کچھ وقت ملاقاتیوں کیلئے نکالتے اور ہنگامی حالات میں جہاد کی مہم پر تشریف لے جاتے ۔ 


شہری اور معاشرتی زندگی  : 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر میں سازوسامان بہت مختصر تھا ، زندگی ایسی گزاری جیسے مسافر گزارتا ، گھر کی آرائش و زیبائش میں صفائی کے سوا کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد تھا کہ دیواروں کو کپڑے نہ پہناو ، سچ ہے جب انسان روٹی کپڑے کے محتاج ہوں تو گھر کے دروازوں اور دیواروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کےلیے پردے مہیا کئے  جائیں ۔ 

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ہمیشہ سادہ پہنا  اور سادہ کھایا ، گوشت ضرور پسند تھا مگر مہینوں  میں نوش فرماتے  کبھی  کبھی دعوت  میں مل  گیا یا  کسی  نے ہدیہ بھیج دیا ۔ حضرت عائشہ کے گھر میں کبھی  گوشت نہ پکا نہ  روٹی  نہ سالن  جوکا  بغیر چھنا آٹا  روغن زیتون میں ہلکا سا بھون کر تیار کیا جاتا ، یہی  سالن تھا ، یہی  روٹی ، جومرغن غذائیں اور قسم قسم  کے کھانے ہم کھاتے ہیں ، اور بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ اور مرغیوں کے مرغے  نوش جاں کرتے ہیں یہ عادت ، مزاج نبوت کے خلاف ہے ، ہم کو اپنی نجی زندگی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی سادگی اپنانی چاہئے ۔

حضور کو ٹھنڈا  اور میٹھا مشروب بہت پسند تھا ، دودھ کے لئے فرماتے کہ یہ پانی ہے اور غذا  کی غذا  بکری کا دورہ اکثر استعمال کرتے ، مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کرتے ، کوئی دعوت دینا قبول فرما لیتے ، انکار نہ کرتے بیٹھنے اٹھنے میں بڑی سادگی تھی ۔ ازدواج مطہرات  پر مثالی شفقت فرماتے اور ان سے محبت کرتے ، بچوں پر بڑے شفیق و مہربان تھے گود میں اٹھا اٹھا  کر پیار کرتے ، بھری  مجلس میں بچے آجاتے تو بھی نہ دھتکارتے مگر مذاق میں حد سے نہ بڑھتے  اور بھی جھوٹ نہ بولتے کبھی  دوستوں کے ساتھ باغوں کی سیر کو نکل جاتے اور وہیں مجلس  فرماتے شعراء اور ادباء کے اچھے کلام کو پسند فرماتے تھے بلکہ بعض مرتبه دوران گفتگو اچھے شعر اور محاورہ کا حوالہ بھی دیتے تھے ، آپ کی زندگی انتہائی متوازن ، مشالی اور واقعتا قابل تقلید ہے ، آج ہمارے سامنے صرف اور صرف حضور ﷺ کی پیاری زندگی کا معیار ہونا چاہے ، الله کی رضا وخوشنودی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی اطاعت میں ہے ۔

Posting Komentar untuk "گھریلو اور معاشرتی زندگی کا آغاز "