Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت سے بعثت تک کے حالات

  حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت سے بعثت تک:


اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ جب کبھی انسان سیدھے راستے سے بھٹک جاتے تو اللہ تعالی ان کی ہدایت کےلئے انہی لوگوں میں سے کسی نیک معزز شخصیت کو منتخب کر کے ان کےلیے رسول یا نبی بنا دیتا تاکہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائیں ۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالی ہر علاقے اور ہر قوم میں نبی بھیجتا رہا ۔ جب دنیا ترقی کر گئی آمدورفت کے ذرائع بڑھ گئے اور وہ وقت قریب آ گیا کہ پوری دنیا ایک بستی یا شہر کی طرح ہو جائے تو ایک ایسے رسول کی ضرورت تھی جو کہ پوری دنیا کےلئے قیامت تک کے لیے ہو ۔ اس لئے اللہ تعالی نے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دنیا کے تمام انسانوں کےلئے اور قیامت تک کے لیے رسول بنا کر بھیجا



1 ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت :


 ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم 12 ربیع الاول کو مکہ میں پیدا ہوئے ۔ اپریل 571 ء کی 22 تاریخ تھی اور پیر کا دن تھا ۔ عرب اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں عام الفیل کا مطلب ہے ہاتھیوں والا سال ۔ اس سال یمن کے ایک عیسائی بادشاہ ابر ہہ نے خانہ کعبہ گرانے کے لیے ہاتھیوں کا لشکر لے کر مکہ معظمہ پر حملہ کیا لیکن اللہ تعالی کی قدرت سے وہ خود تباہ و برباد ہو گیا ۔ اس وجہ سے اس کو عام الفیل کہتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد کا نام حضرت عبداللہ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی آمنہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا کا نام عبدالمطلب تھا ۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سر پرستی کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم رکھا ۔ 



2 ۔ زمانہ رضاعت اور پرورش : 


پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے دودھ پلایا ۔ چند روز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا ابولہب کی باندی ثوبیہ نے دودھ پلایا ۔ اس زمانے میں عرب کے معزز گھرانوں کے بچے دیہات میں پرورش پاتے تھے  ، گاوں کی عورتیں شہر آتیں اور بچوں کو دودھ پلانے اور پالنے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتیں ۔ انہی عورتوں میں قبیلہ بنو سعد کی اک حلیمہ سعدیہ کے پاس رہے پھر واپس اپنی والدہ صاحبہ کے پاس آ گئے ۔ 



3 ۔ والدہ کے ساتھ مدینہ منورہ کا سفر : 


جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چھ برس کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ گئیں ۔ اور وہاں ایک ماہ قیام کیا ۔ واپسی پر ایک مقام ابواء پر بیمار پڑ گئیں اور وہیں آپ کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد کی ایک باندی ام ایمن تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ساتھ لے آئیں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے سپرد کر دیا ۔ 

والدہ محترمہ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پرورش آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا نے کی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آٹھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی انتقال کر گئے ۔ اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپکی بہت محبت سے پرورش کی ۔ 



4 ۔ شام کا سفر : 


جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر بارہ برس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا ابوطالب تجارت کی غرض سے ملک شام کے لیے روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ لے لیا ۔ 



5 ۔ حرب فجار میں شرکت : 


جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پندرہ برس کے ہوئے تو اس وقت عرب کے دو قبیلوں قبیلہ قریش اور قبیلہ بنو قیس میں جنگ چھڑ گئی جسے حرب فجار کہا جاتا ہے ۔ اس جنگ میں قریش حق پر تھے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی جنگ میں شرکت کی اور تیر اندازوں کو اٹھا اٹھا کر دیتے رہے ۔ 



6 ۔ حلف الفضول میں شرکت: 


قریش کے لوگ آئے دن کی لڑائیوں سے پریشان تھے اس لیے انہوں نے ایک معاہدہ کیا کہ امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور غریب و بے کسوں اور مظلوموں کی مدد کریں گے اس معاہدے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ  وسلم نے بھی شرکت کی اس معاہدے کو حلف الفضول کہا جاتا۔ 



7 ۔ تجارتی سفر : 


نے بھی اپنے خاندان کے باقی لوگوں کی طرح تجارت کا پیشہ اختیار کیا آپ سب لوگوں کا مال لے کر شام اور یمن جاتے تھے آپ کی سچائی اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئے اور اس لیے آپ کو صادق اور امین کا لقب دیا گیا ۔ 



8 ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے تجارتی سفر  : 


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ معظمہ کی ایک مالدار خاتون تھیں گھر میں کسی مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار کی خود ہی دیکھ بھال کرتی تھیں اور جن لوگوں کو قابل اعتماد سمجھتی ان کو اپنا مال منافقت شراکت پر تجارت کی غرض سے دیا دیا کرتی تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت و امانت کی شرط پہنچی تو انہوں نے اپنا مال آپ صل وسلم کے سپرد کیا اور اپنے غلام میسرہ کو ہمراہ بھیجا اس دفعہ حضرت ختیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کو پہلے سے دو گنا منافع ہوا ۔ 



9 ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی  : 


حضرت خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام میسرہ نے جب اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے اخلاق و کردار کی کچھ اس طرح تعریف کی کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ میں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کو شادی کا پیغام بھیجا جیسے آپ سلیم نے منظور کرلیا اس وقت آپ صلی اللہ کی عمر مبارک 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر چالیس سال تھی ۔ 



10 ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد : 


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے بیٹے  بچپن میں ہی وفات پاگئے بیٹیوں کے نام یہ ہیں۔ 

1 ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا 

2۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا 

3۔ حضرت کلثوم رضی اللہ عنہا 

4۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا 



11 ۔ حجر اسود نصب کرنے کا واقعہ  : 


خانہ کعبہ کی عمارت پرانی  تھی اس لیے قریش نے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تمام قبیلوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کر دی اس دن سب کرنے کا وقت آیا تو ہر قبیلے نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس مبارک پتھر کو لگانے کے ساتھ بہت ہی اصل بات لڑائی تک پہنچنے لگیں تو ایک بوڑھے سردار نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح کو سب سے پہلے جو شخص خانہ کعبہ میں موجود ہوا اس کے فیصلے کو سب تسلیم کریں گے سب نے اس تجویز کو تسلیم کر لیا سب نے اس تجویز کو تسلیم کر لیا اگلے روز اتفاق سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے خانہ کعبہ پر پہنچ گئے سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کا اظہار کیا اس مسئلے کا حل آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے یہ حل نکالا کہ ایک چادر منگوا کر حجرآسود  اس پر رکھا اور تمام قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ چادر کے کونے  پکڑ کر پتھر نصب کرنے والی جگہ پر لے جائیں جب پتھروں جگہ پر پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود پتھر اٹھا کر اسے اس جگہ پر نصب کر دیا ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیصلے سے سب قبیلے اس سعادت میں شریک ہوئے اور ایک بڑی لڑائی ٹل گئی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک 35 سال تھی ۔ 



12 ۔ غار حرا میں عبادت : 


اب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خا زیادہ وقت یاد خدا میں بسر ہونے لگا ۔ آپ اکثر کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر مکہ کے قریب ایک غار میں چلے جاتے اور وہاں غوروفکر اور عبادت میں مصروف رہتے ۔ اس غار کا نام غار حرا ہے ۔ اسی غار میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی  ۔ 



          ☆☆☆ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ☆☆☆








Posting Komentar untuk "رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت سے بعثت تک کے حالات "