Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

کائنات کے لئے رحمت کا نزول

 

کائنات کے لئے رحمت کا نزول
کائنات کے لئے رحمت کا نزول 



 کائنات کے لئے رحمت کا نزول 


قرآن حکیم میں جس طرح اللہ تعالی کے بہت سے صفاتی نام ہیں جیسے الرحمن ، الرحیم وغیرہ ۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بھی کئی نام آئے ہیں ۔ ان میں سے دو صفاتی نام ایسے ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے لئے بھی استعمال کئے ہیں اور اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے بھی اور وہ نام ہیں 


1 ۔  روف 


2 ۔ رحیم 


ان دونوں ناموں میں رحمت اور شفقت کا اظہار ہے جو بنی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بے پایاں موجود تھی ، بلکہ رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رحمتہ للعالمین کے لقب سے نوازکر یہ ارشاد فرمایا کہ جس طرح اللہ کی ربوبیت عام ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحمت و شفقت عام ہے ۔ جس طرح کائنات کی کوئی شے اللہ کی ربوبیت سے مستغنی نہیں ہے،  اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحمت سے بے نیاز نہیں ہو سکتی  ۔ 



1.1 ۔ رحمت کا مفہوم  : 


ارشاد ربانی ہے 

" ہم نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا  " 

اس آیت مبارکہ کی رو سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام کائنات کےلئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ رحمت ایسی رقت اعر نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسرے کے لئے احسان اور شفقت ارادتہ جوش میں آئے ۔ پس رحمت میں محبت شفقت،  فضل و احسان سب کا مفہوم داخل ہے ۔ عالم سے مراد ہر وجود پزیر شے کا ایک طبقہ ہے ۔ اس طرح اس کائنات میں کئی عالم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رحمتہ للعالمین ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کائنات کے ہر طبقے کےلئے رحمت ہیں ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحمت،  محبت، شفقت اور فضل و احسان کائنات کی ایک چیز پر محیط ہے ۔ 



1.2 ۔ رحمت عامہ کی ضرورت  : 


آفتاب نبوت جب غار حرا سے طلوع ہوا تو اس وقت پورا روئے زمین کفروشرک اور ظلم و عداوت سے بھر چکا تھا ۔ کہیں پتھروں اور درختوں کی پوجا ہوتی اور کہیں سورج ،چاند اور ستاروں کی پرستش کی جاتی ۔ کہیں بادشاہوں کو سجدے کئے جاتے اور کہیں جانوروں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں ۔ اخلاقی جرائم انتہا کو پہنچے ہوئے تھے ۔ شراب نوشی ،قمار بازی ، عیش پرستی، ہوس رانی ،حقوق کی پامالی، ظلم واستبدار ،معاشی استحصال،  جابر اور ظالم حکومتوں کے غیر منصفانہ قوانین نے انسان کو تباہی کے گڑھے پر لا کر کھڑا کیا تھا ۔ انسان اپنی جھوٹی انا کی خاطر نوزائیدہ بچیوں کو ہی زندہ درگور نہیں کرتے تھے بلکہ پوری نسل انسانی اپنے آپ کو زندہ دفن کرنا چاہتی تھی ۔ قرآن کریم نے اس دور کی انتہائی بلیغ انداز میں تصویر کشی کی ہے ۔ 

" تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکےتھے " ( آل عمران : 103) 

اور 

" لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث خشکی اور سمندر میں ہر طرف فساد پھیل چکا " ( الروم : 41 ) 



انسان اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی آباد تھا ، خواہ وہ روم میں تھا یا ایران میں،  چین میں تھا یا مصر میں اس نے اپنے تمدن کو اس حد تک بگاڑ دیا تھا کہ انسان کو زمین پر باقی رکھنے کی کوئی افادیت نہیں رہی تھی ۔ انسان اپنی سفلی خواہشات اور نفس کے حیوانی تقاضوں کی تکمیل کے  سوا ہر مقصد اور ہر حقیقت کو فراموش کر چکا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب پوری انسانیت خود کشی کے راستے پر تیزی سے گامزن تھی ۔ انسان نہ صرف اپنے خالق و مالک کو بلکہ اپنے آپ کو اپنے مستقبل اور انجام کو بھی فراموش کر چکا تھا ۔ بڑے بڑے ممالک میں ایک شخص ایسا نظر نہ آتا تھا جس کو دین کی فکر ہو ، جو خدائے واحد کی پرستش کرتا ہواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو ۔ جس کا دل انسانوں کی خیر خواہی کے جزبے سے درد مند ہو ، جس کے دماغ میں انسانوں کی فلاح اور نجات کا خیال ہو ، جسے اس دنیا کے تاریک اور ہولناک انجام پر بے چینی ہو ۔ یہ حالات تھے جس میں عرب کی بے آب و گیاہ سر زمین پر رحمتہ للعالمین کو مبعوث کیا گیا ۔ تاکہ صرف عرب کو نہیں ز پورے عالم انسانیت کو نہیں ۔ تمام جہانوں کو خدا کی رحمت کے سائبان تلے کھینچ لائیں ۔ 



Posting Komentar untuk "کائنات کے لئے رحمت کا نزول "