Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

بیوی کے حقوق

بیوی کے حقوق : 


جب کوئی مرد اور عورت گواہوں کی موجودگی میں ایک ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں تو وہ میاں بیوی ہو جاتے ہیں ۔ اس عہد کو نکاح کہا جاتا ہے نکاح چونکہ مرد اور عورت کا آپس میں ہوتا ہے اس لئے ان دونوں کی رضامندی نیایت ضروری ہے 



1۔ نکاح میں عورت کی پسند اور رضامندی  : 


اسلام سے پہلے عورتوں کی شادی میں ان کی پسند یا رضامندی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں ماں باپ یا ولی جس کے ساتھ چاہتے نکاح کر دیتے تھےآج بھی بعض علاقوں میں یہی رواج ہے کوئی لڑکی اگر اپنی شرم و حیا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار کر دے تو اسے بہت برا  سمجھا جاتا ہے اسلام نے نکاح کے لیے عورتوں کی اجازت اور رضامندی کو ضروری قرار دیا ہے اگر ماں اور باپ لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دے تو لڑکی کی خواہش پر نکاح بھی ختم کیا جا سکتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عورت کا شوہر فوت ہو گیا تو اس نے ایک شخص سے نکاح کرنا چاہا لیکن اس کے ماں باپ نے کسی اور شخص سے ان کا نکاح کر دیا عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے جا کر شکایت کی آپ نے اس کے باپ کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کیوں کر دیا ہے اس نے کہا  یہ جس سے شادی کرنا چاہتی تھی میں نے اس سے بہتر شخص سے اس کی شادی کی ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ماں باپ کی بات نہیں مانی اور دونوں میں علیحدگی کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے اک شکایت کی کہ اس کے ماں باپ کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دیا آپ نے لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو قبول کرے اور اگر چاہیے تو رد کر دے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار کرنا کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ یہ اس کا حق ہے والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کے رشتے طے  کرنے سے پہلے ان کی پسند معلوم کر لیا کریں ۔ 



2۔ مہر کی ادائیگی  : 


نکاح کے وقت میں مہر  مقرر کیا جاتا ہے مہر بیوی کا حق ہے اور شوہر  کا فرض ہے کہ وہ مہر ادا کرے جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو اس پر مہر واجب ہو جاتا ہے بہتر یہ ہے کہ مہر فورا ادا  کر دیا جائے اگر کسی وجہ سے فورا ادا نہ کیا جا سکے تو جب بھی گنجائش ہو ادا کرنا ضروری ہے اگر کوئی شخص بیوی کا مہر ادا کئے بغیر مر گیا اور بیوی نے اسے معاف بھی نہیں کیا تو وہ شوہر کے ذمے قرض رہے گا اور قیامت کے روز اس کا حساب دینا ہوگا ۔ قرآن کریم میں ہے : " پس ان کے مقرر مہر ادا کیا کرو یہ تم پر قرض ہے "


عام طور پر لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مہر کتنا ہونا چاہیے کچھ لوگ بہت کم رقم مہر کے طور پر مقرر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مہر شرعی ہے  کچھ لوگ اتنا زیادہ مہر مقرر کرتے ہیں کہ جس کا ادا کرنا شوہر کے بعد میں نہ ہو اور یہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے پر مجبور ہو گا  کیونکہ اسے معلوم ہے کہ طلاق کی صورت میں مہر دینا پڑے گا جو ممکن نہیں ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ دونوں باتیں درست نہیں مہر مرد کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے 

میں اتنا کام کیا اس کو ادا کرتے ہوئے محسوس ہی نہ ہو اور نہ ہی اتنا زیادہ اس کا ادا کرنا ممکن نہ ہو تو ہمارے معاشرے میں بھی سے مہر معاف کرانے کا بھی رواج آئے درحقیقت اسلام نے مراد کرنے کے لئے مقرر کیا ہے کہ معاف کرنے کے لیے نہیں یوں بھی یہی بات مردانگی کے خلاف ہے کہ آدمی بیوی سے مہر معاف کرائے ۔ البتہ اگر بیوی اپنی مرضی سے سارا مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو وہ معاف ہو جائے گا قرآن مجید نے مردوں سے کہا ہے کہ وہ خوش دلی سے مہر ادا کیا کریں ہاں اگر بیوی اپنی   خوشی سے معاف کر دے تو کوئی حرج نہیں 



3۔ بیوی کا نفقہ  : 


نفقہ  سے مراد ہے کھانا کپڑا اور مکان شوہر  کا فرض ہے کہ بیوی کے لئے کھانے لباس اور رہائش کا انتظام کرے  نفقہ  سے مراد ہے کھانا کپڑا اور مکان شوہر  کا فرض ہے کہ بیوی کے لئے کھانے لباس اور رہائش کا انتظام کرےاپنی گنجائش اپنی گنجائش  کے مطابق خرچ کرے اور جس کی روزی تنگ ہے اسے جتنا اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے اللہ تعالی کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کے مطابق جتنا اس نے دیا 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ اپنی بیویوں کو اچھا کھانا اچھا لباس دیا کرو اگر بیوی شوہر کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھے اور ان کے ساتھ ساتھ رہے اور وہ بھی اپنی بیٹی کی طرح رکھیں تو خوش اسلوبی سے اکٹھے رہ سکتے ہیں لیکن اگر کسی وجہ سے بیوی ان کے ساتھ نہ  رہنا چاہیے تو اس کو انا کا مسئلہ بنانا درست نہیں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اگر بیوی الگ رہائش کا مطالبہ کرے تو اس کو لے الگ رہائش مہیا کرے خود بھی اس کے ساتھ رہے ۔ ماں باپ کو یہ بات محسوس نہیں کرنی چاہیے ۔ 


4۔ والدین سے ملنے کی اجازت  : 


بیوی کے والدین جب اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے آئیں تو ان سے عزت وتکریم سے پیش آنا چاہیے ان کی خاطر مدارت کرنی چاہیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  خود حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے گھر جا کر ان سے ملاقات کرتے تھے اگر بیوی اپنے والدین سے ملنے کے لیے جانا چاہے تو اس کو والدین یا غریب رشتہ داروں سے ملنے سے نہ روکے

Posting Komentar untuk "بیوی کے حقوق "