Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

حدیث کی اہمیت

  ۔ حدیث اور مقام رسالت 


حدیث رسول کی اہمیت جانے کےلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حشییت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح مقام کو جاننا نہایت ضروری ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حشییت صرف ایک پیغام لانےوالے ہی نہیں  ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہنما ، ہادی ، قاضی اور مطاع ( لائق اطاعت ) بھی ہیں اور قرآن مجید نے آپ کی ان حیشیتوں کو بھی بیان کیا ہے ۔ رسول اس لیے آتے ہیں کہ دنیا کو ہدایت اور اللہ کی رضا مندی کی راہ دکھائیں ۔ قرآن مجید کہتا ہے ۔ آنحضو صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے آپ کا ہرارشاد بحکم وحی ہوتا ہے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے 

" آگاہ رہو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ویسی ہی ایک اور چیز بھی " 


 ۔  بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ  وسلم کے اہم مقاصد اور حدیث 


قرآن کریم کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھیج کر در حقیقت اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر بڑا احسان فرمایا ہے ۔ اگر اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے ہماری تعلیم و ہدایت کا سامان نہ کرتا تو ہم یقینا عمر بھر قرآن کی مراد نہ حاصل کر پاتے ۔ اللہ تعالی اسی احسان کو یاددلاتے ہوئے فرماتا ہے ۔ 

اللہ تعالی نی مومنین پر احسان فرمایا کہ ان کے اندر خود ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ 

اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعث کے تین اہم مقاصد بتلائے گئے ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ اس کتاب کے معانی و مطالب کا بیان بھی فرائض رسالت میں داخل ہے اس لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرآن مجید کی تعلیم و توضیح کے لیے جو کچھ فرمایا اور کر کے دکھایا اور جسے ہم حدیث یا سنت کہتے ہیں ۔ وہ اگرچہ بظاہر قرآن سے علیحدہ ہے ۔ لیکن وہ قرآن ہی کا حصہ ہے 



 ۔ قرآن کی تشریح اور حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم 



قرآن کریم ایک جامع اور کامل کتاب ہے مگر قرآن اپنے آپ میں جامع ہونے کے باوجود تعلیم و تشریح کا محتاج ہے ۔ نبی کا نام یہ ہے کہ وہ اس کتاب کے مطالب سمجھائے اور اس پر عمل کرنا سکھائے قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کے واسطے کے بغیر کتاب اللہ نہیں سمجھی جا سکتی ۔ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرآن کی تعلیم دو طرح دی ہے آپ نے اپنے قول و عمل سے بھی اس پر عمل کرنے کی صورت سکھائی اور اس کی قولی تشریح بھی فرمائی ہے عملی کی صورت یہ تھی کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوا آپ نے اس حکم پر عمل کر کے لوگوں کو دکھایا جس کی وجہ سے الفاظ قرآن کا مفہوم بھی واضح ہو گیا اور جس بات کا حکم ہوا ہے اس کا عملی نقشہ بھی آنکھوں کے سامنے آگیا مشلا قرآن پاک میں نماز قائم کرنے کا تاکیدی حکم نازل ہوا اور اس کے بعض اجزا ( مشلا قیام ، رکوع ، سجود ) کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیا گیا ۔ مگر نماز کی پوری ترکیب و ترتیب اس میں کہیں ذکر نہیں کی گئی ۔ پس نماز قائم کرنے کی ایک خاص شکل آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل سے متعین ہوئی ۔ قرآن کریم میں نماز قائم کرو ۔ کا حکم دیکھ کر ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہونا ضروری ہے کہ اس حکم پر عمل کس طرح کیا جائے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد  تم جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح نماز پڑھو ، گویا اس سوال کا جواب ہے اسی طرح قرآن پاک میں حج فرض قرار دیا گیا ہے مگر حج کا طریقہ اور اس کے ارکان نہیں بیان کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حج کر کے دکھایا کہ اس فریضے کی بجا آوری اس طرح ہونی چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عرفات کے میدان میں اعلان فرمایا " تم سب حج کے مناسک مجھ سے سیکھ لو شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہ دیکھوں " نماز اور حج کی طرح دوسرے ارکان کا بھی یہی حال ہے اور یہی کیفیت شریعت کے اور بہت سے مسائل کی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ تمہیں کیا کرنا ہے اور حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ بتاتی ہے کہ کیسے اور کس طریقے سے کرنا ہے ۔ اس سے حدیثکی اہمیت صاف اور نکھر کر سامنے آ جاتی ہے ۔




 ۔ اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حدیث نبوی : 


حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کو مستقل حشییت سے واجب قرار دیا ہے ۔ اس بناء پر قرآن ہی کا ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہر قول اور ہر فعل کو ایک مستقل اور علیحدہ حشییت سے واجب الا طاعت تسلیم کریں ۔ گویا قرآن مجید پر اس وقت تک پورا عمل ممکن ہی نہیں جب تک ہم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی قانون خداوندی کا حصہ نہ مان لیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اہل ایمان پر فرض ہے ۔ قرآن مجید میں جابجا اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے ۔ 

اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کرو 

 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت کی طرح اہل ایمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت بھی مستقل طور پر فرض ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو حکم دیں اس کو قبول کرنا اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جانا واجب ہے قرآن مجید کا مطالبہ ہے ۔ 

جو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ 

اس بناء پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہر حکم قابل اطاعت ہے کسی شخص کی کامیابی کے لیے جس طرح اللہ کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت بھی ضروری ہے اور جس طرح اللہ کی نافرمانی گمراہی اور بدبختی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نافرمانی بھی گمراہی ہے ۔ فرمان الہی ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی اس نے بڑی مراد پائی ۔ اسی طرح فرمایا ۔ جس نے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نافرمانی کی وہ بڑی کھلی گمراہی میں جا پڑا ۔ 



 ۔ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسلمانوں میں اتحاد کا ذریعہ 


تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں جتنے فرقے پیدا ہوئے ان کی اصل بنیاد قرآن مجید ہے ۔ فرقہ بندی کا اصل باعث وہ عقل ہے جو صرف اپبے اعتماد پر مذہب کا نقشہ تیار کرنا چا ہتی ہے ۔ حضرت حسن بن واصل فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں میں اختلاف و تفرقہ اسی وقت پھیلا ہے جبکہ انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار اور طریقے چھوڑ کر اپنی رائے پر چلنا شروع کر دیا پھر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ اگر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے نیاز ہو کر لوگ قرآن کریم پر غور کرنے لگیں تو اختلاف و تفرقہ کا وہ سیلاب اٹھے گا کہ امت کو لے ڈوبے گا ۔ سب سے پہلا اختلاف آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دفن کے متعلق ہوا ۔ اس اختلاف کا فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر ہوا ۔جو اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے سنائی تھی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالی کے نبی کی روح جس جگہ قبض ہوتی ہے اسی جگہ اسے دفن کیا جاتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انتشار کو دور کر کے امت میں اتحاد پیدا کیا ہے اور آج بھی احادیث رسول کو بنا کر امت میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ 



۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر دین نامکمل ہے 


حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب تک اس دنیا میں رونق افروز ہے ۔ امت نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات اور اسوئہ حسنہ کی انتہائی اہمیت دی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین نے اس پورے خزانہ کی غیر معمولی حفاظت کی اور امانت کے ساتھ بعد والوں کو پہنچایا ۔ حدیث در حقیقت قرآن ہی کی تشریح ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے بغیر دین کا پورا خاکہ ہی تیار نہیں ہو سکتا اور اس لحاظ سے حدیث کے بغیر دین نامکمل رہتا ہے ۔ حدیث کا انکار کر کے قرآن کی تفسیر قرآن کی تحریف بن جائے گا  ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق قرآن کے مطالب بیان کرے گا ۔ اسی طرح دین ایک کھیل بن جائے گا ۔ اس لیے علماء اسلام کا فیصلہ ہے کہ حدیث و سنت پر عمل کرنے میں ہی نجات ہے ۔ 

       

                                                     

           ☆☆☆ …….___.....☆☆☆

Posting Komentar untuk "حدیث کی اہمیت "