Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے

 

ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے

الله تعالی نے انسان کو کائنات کی تمام نعمتوں سے سرفراز کیا ہے جن میں سے سب سے افضل علم ہے یعنی ایساعلم شعور عطا کیاہے

ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اور اس کا ئنات کے خالق و مالک کی شناخت کرتا ہے، وہ دانائی و هوشمندی جس کے ذریعے وہ اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے اور یہی وہ نعمت ہے جو تمام جانداروں میں صرف انسان کو عطا ہوئی اوراسی نے انسان کو تمام مخلوق میں اشرف بنایا۔اتنا اشرف کہ فرشتوں نے بھی سجدہ کیا۔


  اسے عقل کا نور عطا کیا گیا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے اللہ تعالیسے یہ دعا نہیں کرنی چا ہے کہ زندگی کو دکھوں اور آزمائشوں سے نجات مل جائے بلکہ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے الہ انہیں برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ دے۔ اللہ تعالی نے انسان کو عقل عطا کی سمجھ بوجھ دی، اچھے برے کا فرق سکھایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے خالق کی پچھان کر ائی اس کے بعد صرف اور صرف یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی اپنی بیش بہا نعمتوں کے صدقے ہمیں پرسکون اورمتقی بنادے، ذہنی خلفشار اور انتشار سے نجات دے دے۔ یہ دیکھیں کہ زندگی کے مسائل ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں کیونکہ ان سے نبرد آزما ہوکر ہی یقینی کامیابی ممکن ہوتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل ہی زندگی کو بامقصد اور دلچسپ بناتے ہیں۔

آج کے دور کا انسان جس تذبذب، بے چینی اور انتشار کا شکار ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہمارا ایمان ذات خداوندی پر سے کمزور ہو چکا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالی کی ذات پر کامل ایمان رکھتے ہوں اور اسےرحمن ، رحیم، غفار، جبار، قدوس، طبیب اور منصف اعظم سمجھیں تو کیسے ممکن ہے کہ آج کے دور کے بڑے بڑے امراض جیسے کینسر، ہارٹ الیک، ذیابیطس، ایڈز، ہپاٹائیٹس اور ڈپریشن و فوبیا کا شکار ہوسکیں ۔ آج کے اس سائنسی دور میں جہاں میڈیکل سائنس نا کام ہورہی ہے وہاں پر دعائیں ایسے مجزانہ اثرات دکھا رہی ہیں کہ اسلام کے دشمن بھی اس کے قائل ہو چکے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کا ایمان و اعتقاد مضبوط ہو اور مشکلات و مسائل آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آنے دیں لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے اگر ہم اپنےہسپتالوں میں داخل مریضوں کا جائزہ لیں تو یہ بات ہمارے سامنے کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں جسمانی امراض میں گرفتار مریضوں کی تعداد اتنی نہیں جتنی خوف تفکرات، حسد، رقابت اور بدلہ لینے کی کوشش رکھنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔ یہ مریض اگر چاہیں تو اپنی ایسی بیماریوں کو نفسیاتی طریقہ علاج کے تحت اپنے جسم سے ہمیشہ کے لئے باہر نکال سکتے ہیں لیکن ایسے مریض اگران امراض (خوف تفکرات وغیرہ ) کا علاج کرلیں تو ان کی جسمانی تکالیف خود و در فع ہوجائیں گی ۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے پرنظر دوڑائیں تو ہمارے یہاں تقریبا نوے فیصد انتظامی امور اور ذمہ داریوں سے وابستہ افراد ( ذہنی کام کرنے والے) عموم ۴۵ سے ۵۵ سال کے دوران ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، ہارٹ اٹیک، بے خوابی ، السر، اعصابی کمزوری اور اس طرح کے کئی دیگر امراض کا شکار نظر آتے ہیں اس کے برخلاف کارخانوں ، ملوں، فیکٹریوں اوردیہاڑی دارمحنت کش طبقہ ان افراد کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد ہی ایسے امراض کا شکار ہوتا ہے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب خوف و تفکرات اور اعصابی تناؤ و دباؤ خطرناک ترین جراثیموں سے زیادہ خطرناک ہیں تو ان کے خلاف کوئی ایکشن پلان کیوں نہیں بنایا جا تا ان کو دور کرنے کے لئے کیوں کوئی پلانگ نہیں کی جاتی ۔ اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ جذبات اور ہیجانات انسانی جسم پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شرم و حیا اور احساس ندامت کی وجہ سے انسان کے چہرے پر سرخی دوڑ جاتی ہے جبکہ کسی خوف کے سبب چہرے کا رنگ فق ہو جا تا ہے اسی طرح بہت سے پہنی وجذ باقی عوامل انسانی جسم کومتاثر کرتے ہیں جیسے * بہت زیادہ فکر مندی و تشویش سے معدے کے مرض السر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی تناؤ کے سبب سردر در بہنے لگتا ہے اور جیسے ہی ذہنی تناؤ ودباؤ


ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے

ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے

ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے

ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے

Posting Komentar untuk "ذہنی صحت جس سے آج کا ہر انسان محروم ہے"