Lompat ke konten Lompat ke sidebar Lompat ke footer

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے لے کر مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت تک کے حالات

۔ وحی کی ابتدا  


ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے معمول کے مطابق غار حرا میں عبادت میں مصروف تھے کہ اللہ تعالی کا فرشتہ جبرئیل علیہ السلام آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نظر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا فرشتے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے سینے  کے ساتھ زور سے بھینچا  اور کہا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے  جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پڑھیے اور آپ کا رب بہت کرم کرنے والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہ جانتا تھا 



2 ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تذکرہ : 


اس عجیب و غریب واقعے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  بہت پریشان ہوئے اور گھر آکر اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہامجھے کپڑا اوڑھا دو  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے غار حرا میں ہونے والا واقعہ سنایا اور کہا مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ  عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کو تسلی دی اور کہااللہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا کیونکہ آپ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں دوسروں کے کام آتے ہیں غریبوں کی مدد کرتے ہیں مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے ہیں اور مصیبت اٹھانے والوں کا سہارا بنتے تھے ۔ 



3 ۔ تبلیغ کا آغاز  : 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتداء میں اپنے گھر والوں اور قریبی دوستوں کو اللہ تعالی کا پیغام پہنچایا پہلے آپ نے اپنے خاندان عبدالمطلب کی دعوت کی اور لوگوں کو دین اسلام کی بنیادی باتیں بتائیں  حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے علاوہ لوگ خاموش رہے ۔ 

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ 

گو میری آنکھیں دکھتی ہیں میری ٹانگیں کمزور ہیں میں نو عمر ہوں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھ دوں گا ۔ 



4 ۔ سب سے پہلے مسلمان  : 


سب سے پہلے عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ۔ مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، بچوں میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ ، غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ پر ایمان لائے تین سال چپکے چپکے ہی اسلام کی دعوت جاری رہی ۔ 



5 ۔ اعلانیہ اسلام کی دعوت  : 


تین سال کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے آپ سب کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہو یا حکم  ملتے ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ایک دن کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو اکٹھا کر کے اللہ تعالی کا پیغام پہنچایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو لہب نے آپ سے سلم کو برا بھلا کہا اور لوگ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔ 



6 ۔ کفار کی ایذائیں  : 


اس کے بعد کفارنے آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مخالفت شروع کردی اسلام کی تعلیم میں جتنی باتیں تھیں ان سے کفار کا دولت و منصب گھٹنے کا ڈر تھا کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر طرح کی تکلیفیں دیتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتے نماز کی حالت میں پشت پر  نجاست ڈال دیتے ابولہب جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا چچا تھا وہ آوارہ لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے پیچھے لگا دیتا جو آپ سب کو پتھر مار کر لہو لہان  کر دیتے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گردن  میں چادر ڈال کر کھینچتے جس سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا دم گھٹنے لگتا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام تکالیف  برداشت کیں لیکن اللہ تعالی کا پیغام برابر لوگوں تک پہنچاتے رہے اور ثابت قدم رہے ۔ 



7 ۔ اللہ تعالی کا پیغام  : 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے لوگوں کو اللہ تعالی کا یہ پیغام پہنچایا کہ تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو کسی اور کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ بناؤ بتوں کی پوجا نہ کرو برائیوں سے بچو کسی پر ظلم نہ کرو غریبوں  اور کمزوروں پر رحم کرو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرو سب کے ساتھ محبت سے پیش آؤ رشتے دار غریبوں ضعیفوں اور یتیموں سے اچھا  سلوک کرو اسلام میں سب لوگوں  برابر ہیں اچھے کام کا بدلہ اچھا اور برے کام کا بدلہ برا ہوگا



8 ۔ حضرت ابو طالب کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دباؤ : 


کفار نے جب یہ دیکھا کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تو انہوں نے سختی سے آپ سے سلم کی مخالفت شروع کر دی گئیں اور انہوں نے اور انہیں کہنے لگے کہ آپ اپنے بھتیجے کو منع کریں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہے اور باپ دادا کے مزہب کو غلط نہ کہے ورنہ ہم سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائے  ابو طالب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا بتھیجے مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں 



9 ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب :

 

اپنے چاچا ابو طالب کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا چچاجان اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں میں پھیل جائے یا اس کوشش میں میری جان چلی جائے ۔ 



10 ۔ غریب مسلمانوں پر کفار کا ظلم و ستم  : 


قریشی سردار جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کو نقصان نہ پہنچا سکے تو انہوں نے غریب لوگ مسلمانوں پر ظلم وستم شروع کر دیاوہ نہیں مارتے پیٹتے دوپہر کے وقت دوھوپ  میں کھڑا کر دیتے اور ہاتھ پاؤں رسیوں  سے باندھ دیتے حضرت بلال امیہ بن خلف کے غلام تھے جو نے دوپہر کے وقت اور گرم ریت  پر لٹا دیتے اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا کبھی گلے میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کرتا جو انہیں گھسیٹتے رہتے تھے آخرکار حضرت ابوبکر صدیق نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا  ۔ 





Posting Komentar untuk "بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے لے کر مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت تک کے حالات "